Wednesday, July 25, 2012

انصاف کی بات اور تحریکِ انصاف


انصاف کی بات
ڈا کٹر عنایت اللہ فیضی 


خبر یہ ہے کہ سابق امریکی سفیر کیمرون منٹر نے اسلام آباد میں اپنی سفارتی ذمہ داریوں سے 
سبکدوش ہوتے وقت اپنی حکومت کو پاکستانی سیاست کے بارے میں رپو رٹ بھیجی ہے۔رپورٹ میں کہاگیاہے کہ آنے والے انتخابات میں کوئی بھی جما عت واضح اکثریت حاصل نہیں کرسکے گی۔ جو پارٹیاں حکومت میں ہیں ۔ان کے ووٹ بینک میں کمی آئے گی۔ واحد جماعت کے طور پرپاکستان تحریک انصاف کوزیادہ نشستین ملیں گی۔ تاہم وہ دوسری جماعتوں کو ساتھ ملائے بغیر حکومت نہیں بناسکے گی۔ اس ر پورٹ کے مندرجات منظر عام پرآنے کے بعد سب سے تشویشناک صورت حال یہ پیدا ہوگئی ہے کہ ایک دشمن ملک کاسفیر پاکستان میں انتخابی نتائج کو تبدیل کرنے کے حوالے سے پیشگی اطلاع دے دیتاہے ۔دشمن ملک پاکستان میں اپنی مرضی کی حکومت لانا چاہتا ہے ۔دشمن ملک پاکستان میں جمہوریت کو غیرمستحکم کرنے کے لئے ایک بار پھر معلق پارلیمنٹ لانا چاہتا ہے اور دشمن ملک کاسفیر اپنی ذمہ داریوں میں پاکستان کے اند ر اپنی مرضی کی حکومت لانے کو اہم ذمہ داری کا درجہ دیتاہے۔ ''تیری بربادیوں کے افسانے ہیں آسمانوں میں'' دنیا کے کسی بھی مہذب ملک کا سفارت خانہ کسی بھی آزاد اور خود مختار ملک میں آ نے والے انتخابات کے نتائج کو تبدیل کرنے کے حوالے سے اس قسم کی رپورٹ کبھی مرتب نہیں کرے گا۔ جہاں تک پاکستان تحریک انصاف کا تعلق ہے ،انصاف کی بات یہ ہے کہ امریکی سفارت خانے کی رپورٹ سے تحریک انصاف کے ووٹرو ں کا ایک مو ثر طبقہ پی ٹی آ ئی کو بھی دیگر پارٹیوں کی طرح امریکہ کا اتحادی خیال کرکے اس جماعت سے بد ظن ہوجائے گا اور پی ٹی آ ئی کے ووٹ بینکمیں مزید کمی آ جا ئیگی

۔امریکی سفیر کی رپورٹ منظر عام پرآ نے کے بعد پاکستان تحریک انصاف نے اعلان کیا ہے کہ ''انتخابات میں صرف ایسے امیدواروں کو ٹکٹ دیئے جا ئیںگے جن کا ماضی داغ دار نہ ہو ۔جن کے دامن پر کرپشن کے داغ نہ ہو ں ۔گویا صرف عمران خان کو ٹکٹ ملے گا اور یہ سے خبر بھی آئی ہے کہ عمران خا ن چار نشستوں سے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑ ینگے ۔جن میں این اے ون پشاور بھی شامل ہے ٹکٹ کے بارے میں تازہ ترین اعلان سامنے آتے ہی پاکستان تحریک انصاف کئی مشکلات میں پھنس گئی ہے۔ نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن والی کیفیت سے دو چار ہے۔پارٹی نے ماضی کے کسی بھی الیکشن میں کبھی اچھی کارکردگی نہیں دکھائی ۔اب سو نامی والے بھی پارٹی کے لئے پورس کے ہاتھی بن چکے ہیں نیا آنے والا ہر لیڈر پرانے کی جگہ لینا چاہتا ہے۔ گزشتہ ایک سال کے اند ر 4بار پارٹی کی صوبائی اورضلعی تنظیموں کو بنا یا گیا ۔4بار ان تنظیموں کو توڑ ا گیا ۔تازہ ترین صو رت حال یہ ہے کہ تما م تنظیمیں توڑدی گئی ہیں ۔تنظیم سازی کا عمل بھی اس طرح ہے کہ شاہ محمود قریشی کوآرڈینیٹروں کاتقرر کرتے ہیں تو جاوید ہاشمی ان کو معزول کرتے ہیں رستم شاہ مہمند تنظیم بناتے ہیں تو عمران خان اس کو توڑ دیتے ہیں۔خیبر پختو نخوا میں اسد قیصر ،افتخار مہمند ،پرویز خٹک ،خواجہ محمد خان ہوتی اوررستم شاہ مہمند کے اپنے اپنے حلقے ہیں اور اپنی اپنی تنظیمیں ہیں ۔ اضلاع کی سطح پر جوشخص تین ٹکٹوں کا طلبگار ہے۔ وہ شخص ضلعی صدارت کا بھی امیدوار ہے ۔اگرایسے میں انتخابات کا بگل بجایا گیا تو پاکستان تحریک انصاف کو سنبھلنے اورانتخابی حکمت عملی وضع کرنے میں کم ازکم دوسال کاعرصہ لگے گا ۔دوسال سے کم مدت میں یہ جماعت انتخابی میدان میں اترنے کے قابل نہیں ہو گی ۔پاکستا ن تحریک انصاف کی طرف سے جو لوگ مختلف حوالو ں سے اب تک سامنے آتے ہیں وہ یا تو ریٹائرڈ بیورو کریٹ ہیں یا ریٹائرڈ فوجی آفیسر ہیں۔ یا سابق وزراء ہیں۔ ان میں سے غالب اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو اچھی کتاب تو لکھ سکتے ہیں کامیاب انتخابی مہم نہیں چلا سکتے ۔ خود عمران خان کاچار نشستوں پر امید وار بننا انتہائی نا مناسب فیصلہ ہے ۔ اس طرح وسائل تقسیم ہونگے توجہ بٹ جائے گی ۔ اور کسی بھی حلقے سے کامیابی نہیں ملے گی ۔ اس کی جگہ میانوالی کے آبائی حلقے پر پوری توجہ مبذول کی جاتی ہے تو عین مناسب بات ہوگی۔ 


انصاف کی بات یہ بھی ہے کہ پاکستان تحریک انصاف انتخابی تجربے سے گزرنے کے لئے ابھی پوری طرح تیار نہیں ہے۔ اس پر مستزاد یہ اعلان بھی ہے کہ بے داغ ماضی والے لوگوں کو ٹکٹ دئیے جائیںگے۔ اکتوبر1977ء میں جنرل ضیاء الحق انتخابات کرانا چاہتے تھے۔ انہوں نے اعلان کیا کہ صرف ایسے امیدواروں کے کاغذات نامزد گی منظور کئے جائیںگے جو ماضی میں بے داغ کردار کے مالک رہے ہوں ۔ جن کا دامن کرپشن سے پاک ہو۔ اس پر ابراہیم جلیس مرحوم نے کالم لکھا ۔ اپنے کالم میں ابراہیم جلیس نے بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح اور مفکر پاکستان علامہ اقبال کو عالم ارواح میں پریشان حالت میں دکھایا ۔ اس کے بعد دونوں لیڈروں کی روحوں کو دربار خداوندی میں التجا کرنے کے لئے بھیجا۔ دونوں لیڈروں کی روحوں نے دربار خدا وندی میں حاضر ہو کر سوال کیا کہ پاکستان میں قومی اسمبلی کی 115سینٹ کی 100اور صوبائی اسمبلیوں کی 460نشستوں کے لئے 675فرشتے بھیجے جائیں ۔ یا ملک میں جمہوریت کا کاروبار چلے اور آئینی بحران پیدا نہ ہو۔ خیر اکتوبر 1977ء کے انتخابات منسوخ ہوئے۔ مارچ 1985ء میں غیر جماعتی الیکشن ہوئے تو وہی کرپٹ لوگ اسمبلیوں میں آگئے۔ کرپشن،بدعنوانی ،بے اصولی اور غیر جمہوری طرز عمل کے لحاظ سے 1985ئکی اسمبلیاں اپنی مثال آپ تھیں ۔ ملک میں اب تک جو کرپشن ہوئی یا اس وقت جو کرپشن ہو رہی ہے اس کی پہلی اینٹ 1985ء میں رکھی گئی تھی۔ پاکستان تحریک انصاف اگر بے داغ لوگوں کو ٹکٹ دینا چاہتی ہے تو اس کے دو راستے ہیں ۔پہلا راستہ یہ ہے کہ سارے ٹکٹ عمران خان کو دئیے جائیں ۔دوسرا راستہ یہ ہے کہ بارگاہ خدا وندی میں فرشتے اتارنے کے لئے التجا کی جائے ۔ حاضر اسٹاک میں جو مال ہے اس کے ماضی کے بارے میں ایسا دعویٰ مشکل ہے۔ بے داغ ماضی کا ذکر مجھے تو خواب لگتا ہے ۔ قابل عمل بات یہ ہے کہ جو لوگ دستیاب ہیں ان کو ٹکٹ دے دیں ۔کامیابی کے بعد خود رول ماڈل بن کر پشن کا راستہ روکیں ۔ کسی کو بد عنوانی کی اجازت نہ دیں ۔اگر اوپر کی سطح پر بد عنوانی نہیں ہوگی تو درمیانی اور نچلی سطح پربدعنوانی آسانی سے ختم کی جاسکتی ہے۔ مگر اس مقصد کے لئے بے داغ لوگوں کو ٹکٹ دے کر الیکشن جیتنا محال ہے۔ پہلے الیکشن جیتیں ۔اس کے بعد سیاست اور حکومت کو بدعنوانی اور کرپشن سے پاک کریں۔ یہ ہے انصاف کی بات۔

No comments:

Post a Comment